جیسا کہ پہلی آیت میں بیان ہوا‘ تمام سابقہ اُمتوں کو یہ حکم ہوتا رہا : اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ کہ دین کو قائم کرو اور اس کے بارے میں تفرقے میں مت پڑو! اب اگلی آیت میں اس کا سبب بیان کیا جا رہا ہے کہ جب دین ایک ہے تو پھر تفرقہ کیوں ہوا؟ یہودیت نے ایک علیحدہ راہ کیوں نکالی اور عیسائیت نے علیحدہ راہ کیوں؟ ہر سلیم العقل انسان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہود و نصاریٰ تو توحید سے بھی واقف تھے اور وحی‘ بعثت ِانبیاء و رُسل‘ انزالِ کتب سماوی‘ بعث بعد الموت اور محاسبۂ اُخروی کے عقائد سے بھی واقف تھے. یہ امور اُن کے لیے اجنبی نہ تھے. ان کے برعکس اہل عرب اُمّی شمار ہوتے تھے اور وہ ان عقائد سے آگاہ نہ تھے. تو پھر اہل کتاب نے آگے بڑھ کر اس دعوت کو قبول کیوں نہیں کیا؟ بلکہ اس کی مزاحمت و مخالفت میں مشرکین سے بھی زیادہ شدید کیوں ہو گئے؟ اس کا سبب معلوم ہونا ضروری ہے. عام طور پر تفرقے کے دو اہم سبب ہو سکتے ہیں. پہلا یہ کہ جب حق آئے تو وہ واضح نہ ہو اور دوسرا یہ کہ باہمی ضدّم ضدّا ‘ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے پر فوقیت حاصل کرنے کے لیے حق کا انکار کیا جائے اور تفرقے کا راستہ اختیار کیا جائے. اگلی آیت میں قرآن مجید پہلے سبب کی نفی اور دوسرے سبب کا اثبات کر رہا ہے. چنانچہ فرمایا:
وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ
’’اور لوگوں نے تفرقہ نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ اُن کے پاس علم آ چکا تھا‘ صرف اس لیے کہ وہ ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے.‘‘
پس معلوم ہوا کہ ان کے تفرقے کا اصل سبب ناواقفیت نہیں بلکہ ان کی ضد اور سرکشی تھی. ان کے پاس ’’العلم‘‘ آ چکا تھا‘ یعنی ہدایت ِربانی ان کو پہنچ چکی تھی‘ حق ان پر واضح ہو چکا تھا. اور حق تو جب بھی آتا ہے بہت واضح‘ مبرہن اور بینہ بن کر آتا ہے. سورۃ البینہ میں اس مضمون کو مزید واضح کیا گیا:
وَ مَا تَفَرَّقَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنَۃُ ؕ﴿۴﴾
’’اور نہیں تفرقہ کیا ان لوگوں نے جنہیں کتاب دی گئی تھی مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس ’’البینہ‘‘ آ چکی تھی.‘‘
یعنی حق روشن اور مبرہن صورت میں ان کے سامنے پیش کیا جا چکا تھا. لہٰذا تفرقے کا اصل سبب لاعلمی اور ناواقفیت نہیں‘ بلکہ کچھ اور ہی ہے. چنانچہ اس تفرقے کے حقیقی سبب کو ’’بَغْیًا بَیْنَھُمْ‘‘کے الفاظ سے واضح کیا گیا کہ اس کا اصل محرک آپس کی ضد‘ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش اور ایک دوسرے پر غالب آنے کی خواہش ہے. یا پھر قومی مفادات‘ قومی تفاخر‘ گروہی مناصب‘ ذاتی وجاہت و حشمت اور دُنیوی اغراض و مصالح کی خاطر حق سے اعراض کی روش اختیار کی جاتی ہے.
اہل کتاب کے علاوہ سردارانِ قریش بھی اسی ضد کے سبب سے آنحضورﷺ کی دعوت پر ایمان نہ لائے اور دین حق کی راہ میں مزاحم رہے. اس کی نمایاں ترین مثال ابوجہل کا وہ قول ہے جو اُس نے اس وقت کہا جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا تمہارے خیال میں محمدﷺ (نعوذ باللہ) جھوٹے ہیں؟ اس نے جواب میں کہا تھا نہیں‘ انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا__ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اور بنی ہاشم کے مابین ایک خاندانی مسابقت چل رہی تھی. بنوہاشم نے مہمان نوازیاں کیں‘ ہم نے ان سے بڑھ کر کیں. انہوں نے حجاج کو کھانے کھلائے‘ ہم نے ان سے بڑھ کر کھلائے. انہوں نے ضیافت کے لیے اونٹ ذبح کیے‘ ہم نے ان سے زیادہ تعداد میں کیے. اس مسابقت میں اب تک ہم نے ان سے مات نہیں کھائی تھی‘ لیکن اب اگر ہم محمد (ﷺ ) کی نبوت کومان لیں اور ان کی رسالت کو تسلیم کر لیں تو ہم پر بنی ہاشم کی برتری ابدالآباد تک قائم ہو جائے گی! چنانچہ اس کی اس بات سے مخالفت اور تفرقہ کا اصل سبب واضح ہوتا ہے.
یہی معاملہ یہود کا ہوا. قرآن مجید کی شہادت یہ ہے : اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰـھُمُ الْکِتٰبَ یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ ؕ (البقرۃ:۱۴۶‘ الانعام:۲۰) ’’جن کو ہم نے کتاب عطا فرمائی‘ وہ انہیں (یعنی رسول اللہﷺ کو) اس طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہوں!‘‘ یہود نے محمد رسول اللہﷺ کی نبوت و رسالت کا انکار کسی مغالطے کی بنا پر نہیں کیا تھا‘ بلکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ وہی آخری نبی ہیں جن کی بشارتیں اور پیشین گوئیاں وہ سنتے چلے آ رہے تھے اور جن کی آمد کے وہ منتظر تھے. اسی طرح عیسائی بھی آنحضورﷺ کی آمد کی پیشین گوئیوں سے اچھی طرح واقف تھے. ایک عیسائی راہب نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع دی تھی کہ جنوب میں کھجوروں کے جھنڈ میں نبی آخر الزماں کا ظہور ہو گا‘ اگر حقیقی ہدایت اور حق کی طلب ہے تو وہاں پہنچو اور ان کی بعثت کا انتظار کرو! یثرب اور اس کے قرب و جوار میں رہنے والے یہودی اوس و خزرج کے قبیلوں کو دھمکایا کرتے تھے کہ ایک نبی ظاہر ہونے والا ہے‘ اور ہم جب اس کے ساتھ ہو کر تم سے لڑیں گے تو تم ہمارا مقابلہ نہیں کر سکو گے.
یہ عجیب بات ہے کہ یہودیوں کی یہی دھمکی بیعت ِعقبۂ اُولیٰ کا سبب بن گئی‘ جس کا حوالہ اجتباء کی مثالوں کے ضمن میں دیا گیا ہے. جب مدینہ کے کچھ لوگ مکہ پہنچے اور ان کو حضورﷺ کی دعوتِ نبوت کا علم ہوا تو ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ جلدی کرو اور اُن کے ہاتھ پر بیعت کر لو. یہ وہی نبی معلوم ہوتے ہیں جن کی آمد کے یہود منتظر بیٹھے ہیں‘ مبادا وہ ہم سے سبقت لے جائیں. اس طرح نبی اکرمﷺ پر ایمان لانے اور پھر آپﷺ کے اعوان و انصار بننے کی سعادت اہل مدینہ کے حصے میں آئی‘ لیکن یہود کی بدبختی آڑے آئی اور وہ دولت ایمان سے محروم رہے. اس لیے کہ ان کی عزتِ نفس پر یہ چوٹ پڑی کہ نعمت ِ نبوت بنی اسرائیل سے چھن گئی اور یہ اعزاز بنی اسماعیل کو حاصل ہو گیا کہ نبی آخرالزماں ان میں مبعوث کیے گئے. ان کا یہی تعصب‘ ضد‘ ہٹ دھرمی اور نسلی برتری کا احساس ان کے پاؤں کی بیڑی بن کر رہ گیا اور محرومی ان کا مقدر ٹھہری. اسی لیے فرمایا گیا:
وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ
کہ انہوں نے جو تفرقہ و اختلاف کیا تو وہ کسی مغالطے یا ناواقفیت کی بنا پر نہیں‘ بلکہ ہدایتِ ربانی کے واضح طور پر پہنچ جانے کے بعد محض اپنے نفس کی شرارت و سرکشی اور باہمی ضد کا نتیجہ ہے!