قرآن حکیم کے بارے میں خود قرآن ہی کے الفاظ ہیں: فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ’’اس میں تمہارا ذکر موجود ہے‘‘. چنانچہ آیتِ زیردرس کے اگلے حصے میں قرآن ہمارے سامنے ہماری ہی تصویر پیش کر رہا ہے. تو آئیے‘ آئینۂ قرآنی میں اپنی تصویر دیکھئے‘ اور اگر یہ تصویر بری نظر آئے تو آئینے کو الزام مت دیجیے‘ کیونکہ آئینہ تو حقیقت کی عکاسی کرتا ہے‘ بلکہ اپنی شکل کو درست کرنے کی فکر کیجیے! فرمایا:
وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۴﴾
’’اور وہ لوگ جو کتاب کے وارث بنائے گئے ان کے بعد وہ درحقیقت اس کے بارے میں سخت الجھن میں ڈالنے والے شک میں مبتلا ہیں.‘‘
اس وقت قرآن کے ساتھ ہمارا جو معاملہ ہے وہ اس آیت کا مصداقِ کامل ہے. اور یہ درحقیقت اس بات پر ہمارا ایمان مضمحل ہو جانے کا نتیجہ ہے کہ قرآن واقعی اللہ کی کتاب ہے‘ ورنہ یہ ناممکن اور محالِ عقلی ہے کہ ایک طرف ہمارا یہ یقین ہو کہ یہ مالکِ ارض و سماء کا کلام ہے جس کے حضور ہمیں پوری زندگی کے اعمال کی جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہے اور دوسری طرف ہم اس سے اعراض اور گریز کا طرزِعمل بھی روا رکھیں. کیا یہ ممکن ہے کہ ہمیں یہ یقین ہو کہ یہ کتاب ہماری زندگی کے ایک ایک گوشے کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے اور پھر بھی نہ اسے پڑھنے کا ہمارے پاس وقت ہو اور نہ اسے سمجھنے کی ہمیں ضرورت محسوس ہو؟ ہم سب کچھ پڑھیں‘ انگریزی ادب میں سکالر ہو جائیں‘ دنیا بھر کے علوم و فنون حاصل کر لیں‘ ڈاکٹری اور انجینئرنگ کی ڈگریاں حاصل کرنے کے لیے عمرِعزیز کے کئی قیمتی سال صرف کر دیں‘ لیکن اگر عربی پڑھنے اور قرآن حکیم کو سمجھنے کی توفیق نہ ہوئی ہو تو یہ دعویٰ کیسے صحیح قرار دیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید پر ہمارا ایمان ہے؟یہ قرآنی تشخیص ہے جو اِن الفاظ میں بیان فرمائی گئی ہے :
وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۴﴾
قرآن کا اعجاز ملاحظہ ہو کہ اس کیفیت کے لیے لفظ ’’شک‘‘ پر اکتفا نہیں کیا‘ بلکہ اس کے ساتھ ’’ریب‘‘ کا لفظ بھی استعمال فرمایا کہ اچھی طرح سمجھ لو کہ تم جس حالت میں مبتلا ہو وہ محض شک کی نہیں‘ بلکہ تمہارے شکوک میں بہت ہی اضطراب انگیز شبہات بھی ہیں‘ اس لیے کہ تمہاری عملی تصویر اس کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے.