آیتِ زیرِ درس کا اگلا ٹکڑا ہے: وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآءَ ھُمْ ’’اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو.‘‘ اس ٹکڑے کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ہمیں پھر اس ماحول اور پس منظر کی طرف رجوع کرنا ہو گا جس میں یہ ہدایت دی گئی. مکی دَور کے قریباً نصف میں ایسی فضا پیدا ہو گئی تھی کہ جب قریش کے مشرک سرداروں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیے ان کی ساری کوششیں ناکام ہو گئی ہیں اور اس دعوت کو ظلم و تشدد اور ایذا رسانی کے ذریعے سے دبانا ممکن نہیں ہے. انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو بھی ہر طرح سے ستا کر دیکھ لیا تھا اور آپؐ کے جاں نثار اہل ایمان پر بھی تشدد کے پہاڑ توڑے تھے. جو کچھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ ‘حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ اور آلِ یاسر رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ ہوا اس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے.
حضرت بلالؓ کو تپتی دھوپ میں مکہ کی سنگلاخ زمین پر مُنہ کے بل گھسیٹا جاتا تھا‘ لیکن ان کی زبان پر کسی فریاد‘ کسی فغاں یا کسی آہ و بکاء کے بجائے بس اَحد‘ اَحد کا کلمہ جاری رہتا. حضرت خبابؓ کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا جاتا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ دیا جاتا‘ ان کے گوشت کے جلنے اور چربی کے پگھلنے سے انگارے ٹھنڈے ہوتے‘ مگر وہ صبر و ثبات کی چٹان بنے رہے. حضرت یاسرؓ کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں چار سرکش اونٹوں کے ساتھ باندھ کر انہیں مخالف سمتوں میں دوڑا دیا گیا جس سے آپؓ کے جسم کے پرخچے اڑ گئے. ان کی اہلیہ محترمہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہاکو ابوجہل لعین نے شرمگاہ میں نیزہ مار کر شہید کر ڈالا. حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دھواں دیا کرتے تھے جس سے دم گھٹنے کے قریب ہو جاتا تھا. حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مادر زاد ننگا کر کے گھر سے نکال دیا گیا تھا. حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی والدہ نے بھوک ہڑتال کر دی تھی کہ اگر سعدؓ اپنے آبائی دین پر واپس نہ آیا تو میں بھوکی مر جاؤں گی. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو کئی بار اتنا مارا پیٹا جاتا کہ جان کے لالے پڑ جاتے تھے. رضی اللہ تعالیٰ عنہم و ارضاہم اجمعین غرضیکہ اہل ایمان پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا تھا‘ یہاں تک کہ کچھ لوگ حضورﷺ کی اجازت سے ترکِ وطن کرکے حبشہ ہجرت کر گئے.
جب قریش نے یہ دیکھ لیا کہ مسلمانوں کو ہرممکن طریقے سے ستانے‘ تکلیفیں پہنچانے اور ظلم و تشدد کی انتہا کر دینے کے باوجود ان میں سے کوئی بھی اس دین سے واپس نہیں پلٹا‘ تب انہوں نے باہمی مشاورت سے فیصلہ کیا کہ اب رسول اللہﷺ سے مصالحت کے لیے بات چیت کرنی چاہیے. اگر یہ کچھ باتیں ہماری مان لیں اور کچھ ہم ان کی مان لیں تو ہماری ناک بھی نیچی نہیں ہو گی اور ایک مصالحانہ فضا بھی پیدا ہو جائے گی. ویسے کچھ لوگ تو اس طرح کی مصالحت کی ضرورت آنحضورﷺ کی دعوت کے آغاز ہی سے محسوس کر رہے تھے اور اس کے لیے کوشش بھی کرتے رہے تھے‘ جس کی طرف سورۂ نٓ(سورۃ القلم) میں اشارہ موجود ہے‘ جو دعوت کے آغاز کی سورت ہے. وہاں آنحضورؐ ‘ کو ان کی چالوں سے بایں الفاظ مطلع فرما دیا گیا تھا:
فَلَا تُطِعِ الۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿۸﴾وَدُّوۡا لَوۡ تُدۡہِنُ فَیُدۡہِنُوۡنَ ﴿۹﴾
’’پس (اے نبیﷺ ) آپؐ ان جھٹلانے والوں کے دباؤ میں ہرگز نہ آئیں. یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ آپؐ مداہنت کریں تو یہ بھی مداہنت کا رویہ اختیار کریں.‘‘
جن لوگوں نے سیرتِ مطہرہ کا مطالعہ کیا ہے انہیں معلوم ہو گا کہ سردارانِ قریش کی جانب سے آنحضورﷺ کے پاس وقتاً فوقتاً سفارتیں آتی رہی ہیں اور آپؐ کو مختلف اوقات میں مختلف پیشکشیں بھی کی جاتی رہی ہیں. آپؐ سے کہا گیا کہ اگر آپؐ کو اس دعوت کے ذریعے دولت چاہیے تو آپؐ اشارہ کر دیجیے‘ ہم آپؐ کے قدموں میں زر و سیم اور جواہر کے انبار لگا دیں گے. اگر آپؐ کو اقتدار کی خواہش ہے اور آپؐ بادشاہ بننا چاہتے ہیں تو اگرچہ ہم قبائلی زندگی کے عادی ہیں اور بادشاہت کا نظام ہمارے مزاج اور طبیعت سے میل نہیں کھاتا‘ پھر بھی ہم آپؐ کو بادشاہ بنانے کے لیے تیار ہیں. اگر آپ کسی خاص خاتون سے رشتۂ ازدواج قائم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو اشارہ کر دیجیے‘ وہ خاتون چاہے کسی خاندان کی ہو‘ آپؐ کی زوجیت میں دے دی جائے گی. انہوں نے مزید پیشکش کی کہ آپؐ جس طرح نماز پڑھنا چاہیں‘ اپنے معبود کی عبادت کرنا چاہیں‘ ہم مزاحم نہیں ہوں گے. ان تمام پیشکشوں کے عوض ہم بس اتنا چاہتے ہیں کہ آپؐ ہمارے آبائی دین کو‘ ہمارے بُتوں‘ ہمارے اس مشرکانہ نظام کو برا کہنا چھوڑ دیں‘ اس پر تنقید کرنا ترک کر دیں. ان تمام پیشکشوں کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے جو جواب دیا وہ اگر تاریخ میں آبِ زر سے لکھا جائے تب بھی اس کی عظمت کا حق ادا نہیں ہو سکتا. آپؐ نے فرمایا: ’’اگر تم میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دو تب بھی میں اس دعوت سے باز نہیں آ سکتا.
یا تو میں اس دعوت کی تبلیغ میں اپنی جان دے دوں گا یا اللہ تعالیٰ اس کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے گا!‘‘
اس پورے تاریخی پس منظر کو پیش نظر رکھا جائے تو پھر ان الفاظِ مبارکہ کی معنویت پوری طرح واضح ہوتی ہے: فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۚ یعنی اے نبیﷺ ! آپؐ اپنی دعوت پر ڈٹے رہیے اور اس دینِ حق کی طرف بلاتے رہیے جس کا آپؐ کو حکم دیا گیا ہے. یہ مشرکین دام ہم رنگ زمیں بچھا کر چاہتے ہیں کہ مصالحت کی کوئی صورت پیدا ہو جائے. کچھ لینے اور دینے(give & take) کا معاملہ ہو جائے‘ لیکن آپؐ کو ان کی خواہشاتِ باطلہ کی پیروی کرنے‘ اپنی دعوت میں کوئی لچک پیدا کرنے اور اپنے موقف میں کوئی کمزوری ظاہر کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے. کوئی مانے تو اپنے بھلے کو‘ نہ مانے تو اس کا وبال بھی اسی کے سر ہے. وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا لُقۡمٰنَ الۡحِکۡمَۃَ اَنِ اشۡکُرۡ لِلّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یَّشۡکُرۡ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿۱۲﴾ (لقمان) اللہ تعالیٰ بڑا غیور ہے‘ وہ الصمد ہے‘ وہ الغنی ہے‘ وہ ستودہ صفات ہے‘ وہ اس بات کا محتاج نہیں کہ لوگ اگر اس کا دین صد فی صد نہیں مانتے تو چلو پچاس فی صد یا کم و بیش پر ہی معاملہ کر لیا جائے!نہیں بلکہ اس کا مطالبہ تویہ ہے کہ : ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ (البقرۃ:۲۰۸) کہ دینِ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ! اس کے دین کو قبول کرنا ہے تو اسے پورا پورا قبول کرنا ہو گا‘ اس کے لیے اللہ کے دین میں باطل کی ذرا سی بھی آمیزش ہو گئی تو دین خالص نہ رہے گا اور یوں اللہ کے اس حکم کی خلاف ورزی ہو جائے گی: اَلَا لِلّٰہِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ ؕ (الزمر:۳) ’’ آگاہ ہو جاؤ دینِ خالص (اطاعتِ کلی) صرف اللہ کا حق ہے‘‘ اور: اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ فَاعۡبُدِ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّہُ الدِّیۡنَ ؕ﴿۲﴾ (الزمر) ’’ (اے نبیﷺ !)ہم نے آپؐ کی طرف یہ کتاب برحق نازل کی ہے‘ لہذا آپﷺ اللہ ہی کی بندگی کریں‘ دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے.‘‘ حق اور باطل کی آمیزش سے جو مجموعہ بھی وجود میں آئے گا وہ حق نہیں کہلائے گا‘ وہ حقیقت کے اعتبار سے حق نما باطل ہو سکتا ہے‘ لیکن حق نہیں ہو سکتا‘ بقول علامہ اقبال : ؎
باطل دوئی پسند ہے‘ حق لاشریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول!
اس شعر میں بڑی حکیمانہ بات بیان کی گئی ہے. چونکہ خالص اور مجرد باطل کا تو وجود قائم رہ ہی نہیں سکتا‘ لہذا باطل مجبور ہوتا ہے کہ وہ خود کو قائم رکھنے کے لیے حق کا کوئی نہ کوئی جزو اپنے اندر شامل کرے. یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور اس کا ذرہ ذرہ اس کے حکم کا پابند ہے‘ لہذا باطل کی یہاں کوئی گنجائش نہیں. باطل درحقیقت حق و باطل کا ملغوبہ ہوتا ہے اور اس میں حق کا کوئی نہ کوئی جزو شامل ہوتا ہے‘ جس کی تأثیر سے وہ کچھ نشوونما پاتا ہے. اس کی مثال آکاس بیل کی ہے جو کسی ہرے بھرے درخت ہی کے طفیل نشوونما پاتی ہے.
نبی اکرم ﷺ کو ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں یہود و نصاریٰ سے سابقہ پیش آیا تو ان دونوں فریقوں کی بھی یہ کوشش تھی کہ اگر نبی اکرمﷺ ان کی خواہشاتِ باطلہ کی پیروی کریں اور ان کے ساتھ دین کے معاملہ میں مصالحانہ رویہ اختیار کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو وہ بھی کچھ جھکنے کے لیے تیار ہو جائیں. جیسا کہ سورۃ البقرۃ میں فرمایا گیا: وَ لَنۡ تَرۡضٰی عَنۡکَ الۡیَہُوۡدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمۡ ؕ (آیت۱۲۰) ’’اور (اے نبیﷺ !) یہ یہود و نصاریٰ آپ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک آپؐ ان کے طورطریقوں کی پیروی نہ کریں‘‘. مشرکین اور اہلِ کتاب یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ آپؐاس ضمن میں کسی مصالحت کے لیے قطعا آمادہ نہیں ہو سکتے‘ چنانچہ ان کی یہ مصالحانہ پیشکشیں دراصل مخلصانہ نہیں ہوتی تھی‘ بلکہ اپنے زیراثر عوام کو یہ مغالطہ دینے کے لیے ہوتی تھیں کہ ان کی طرف سے تو مصالحت کی کوششیں تواتر کے ساتھ جاری ہیں‘ مگر محمد (ﷺ ) اپنے موقف پر بضد ہیں.