اس ضمن میں سب سے بڑا محاذ جاہلیت قدیمہ کا ہے. بڑا اس اعتبار سے کہ یہ ہمارے عوام کی اکثریت کا معاملہ ہے. عوام الناس کی بڑی عظیم اکثریت کے اندر جاہلیت قدیمہ رچی بسی ہے. میں چاہتاہوں کہ پہلے آپ جاہلیت قدیمہ کی اس اصطلاح کو اچھی طرح سمجھ لیں. قرآن مجید اور احادیث شریفہ کی رو سے اسلام سے پہلے کے دور کو ’’دورِ جاہلیت‘‘ سے تعبیر کیا جاتاہے. اس اصطلاح کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کی حقانیت‘ صداقت اور ہدایت کے برعکس جو کچھ بھی پہلے تھا اور جو کچھ اب ہے وہ ’’جاہلیت‘‘ ہے.
جاہلیت کو جہالت کے معنوں میں مت لیجیے گا‘ یہ خلط مبحث ہو جائے گا. ویسے جہالت کے بھی عربی میں وہ معنی نہیں ہیں جو ہم اُردو میں استعمال کرتے ہیں. اُردو میں ہم اَن پڑھ انسان کوجاہل کہتے ہیں ‘ یعنی عالم کے مقابلے میں اُردو میں جاہل کا لفظ مستعمل ہے‘ جبکہ عربی میں جاہل کا لفظ حلیم کے مقابلے میں بولا جاتا ہے. ایک وہ انسان ہے جو بردبار ہے‘ صاحب ِ عقل ہے‘ غور و فکر کرتاہے ‘محض جذبات سے مغلوب نہیں ہوتا‘ بلکہ عقل کی رہنمائی میں فیصلے کرتا ہے اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کا رُخ متعین کرتا ہے. عقلی دلیل کی بنیاد پر کسی بات کو قبول یا مسترد کرتا ہے. یہ ہے حلیم انسان. اور ایک شخص وہ ہے جو جذباتی ہے‘ اکھڑ ہے‘ غیر مہذب ہے‘ ناشائستہ ہے‘ شہوات وجذبات کی رَو میں بہہ جاتا ہے. اس کی عقل پر تعصبات و خواہشات کے پردے پڑے ہوئے ہیں. ہو سکتا ہے کہ ایسا شخص پی ایچ ڈی ہو‘ بہت تعلیم یافتہ انسان ہو‘ لیکن اسلام کی رُو سے یہ شخص جاہل ہے. جاہل سے ’’جہالت‘‘ بنے گا‘ لیکن اسی لفظ جہل سے ’’جاہلیت‘‘ کی اصطلاح بنتی ہے ‘جس کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام کے ماوراء اور اسلام کے سوا جو کچھ ہے اور جو کچھ تھا!
جاہلیت ِ قدیمہ کے اجزائے ترکیبی
اِس جاہلیت کو میں اس وقت دو حصوں میں تقسیم کر کے آپ حضرات کے سامنے رکھ رہا ہوں.ایک جاہلیت قدیمہ ہے. یہ وہ جاہلیت ہے جو عرب معاشرے میں اُس وقت نہایت غالب عنصر کی حیثیت سے موجود تھی جس وقت نبی اکرمﷺ کی بعثت ہوئی تھی.یہ جاہلیت قدیمہ دو چیزوں سے مرکب تھی. ایک شرک‘ یعنی مشرکانہ اوہام‘ جو توحیدکی ضد ہے اور دوسرے ’’شفاعت ِباطلہ‘‘ کا تصور وعقیدہ‘ جو ایمان بالآخرۃ کی ضد ہے.
جاہلیت ِ قدیمہ میں اللہ کا انکار نہیں تھا. مشرکین مکہ اللہ کو مانتے تھے. قرآن مجید کی تلاوت کرنے والاشخص جو گاہ بگاہ بھی ترجمہ دیکھ لیتا ہے اُس پر یہ حقیقت روشن ہوگی کہ قرآن نے متعدد باریہ بات کہی ہے کہ اے نبیؐ !اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟تو یہ لوگ فوراً پکار اٹھیں گے کہ اللہ نے! (۱) اور اے نبیؐ !اگر
(۱) وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ (لقمان:۲۵) آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان سے بارش کون برساتا ہے اور اس کے ذریعے سے مردہ زمین سے نباتات کون اُگاتا ہے تو فوراً کہیں گے کہ اللہ! (۲) تو وہ اللہ کے منکر نہیں تھے. البتہ انہوں نے اللہ کے ساتھ دیگر معبودوں کی ایک فوج تصنیف کر رکھی تھی. کہیں وہ اللہ کے ساتھ جنات کو پوجتے تھے‘ کہیں انہوں نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قراردے کر اُن کے نام پر دیویاں تراش لی تھیں اور ان کے لیے استھان بنا لیے تھے‘ جہاں وہ چڑھاوے چڑھاتے تھے‘ وہاں جا کر منتیںمانتے تھے اوردعائیںکیا کرتے تھے. یہ تھا ان کا شرک! یہ شرک آج بھی آپ کو اپنے عوام میں بتمام و کمال ملے گا‘ ایک شوشے کا فرق نہیں ہے. اس شرک نے صرف ہیئت بدل لی ہے کہ آج پتھر کی بنی ہوئی مورتیاں سامنے نہیں رکھی جاتی ہیں ‘ لیکن قبروں کے ساتھ وہی معاملہ ہو رہا ہے جو اُس دَور میں بتوں کے ساتھ ہوتا تھا. سر ِمو فرق نہیں. عرسوں کے نام سے یہ جو بڑے بڑے میلے ہوتے ہیں ذرا ان میں جا کر دیکھئے کہ وہاں کیا ہوتاہے! میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ نے عرب کے دورِ جاہلیت کے میلوں کی رودادیں پڑھی ہوں تو وہ شاید ان سے کہیں پیچھے رہ جائیں. تو اس جاہلیت ِ قدیمہ کا ایک جزو تویہ شرک ہے!
جاہلیت ِقدیمہ کا دوسرا جزو شفاعت ِ باطلہ کا عقیدہ و تصور ہے. جب ان سے یہ کہا جاتا تھا کہ تم مانتے ہو کہ اللہ ہی خالق ہے‘ اللہ ہی مالک ہے‘ اُسی نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے‘ اُسی نے سورج اور چاندکو مسخر کر رکھا ہے تو فَاَنّٰی تُؤۡفَکُوۡنَ (۳) اور فَاَنّٰی تُصۡرَفُوۡنَ (۴)
یہ سب کچھ مان کر کہاں سے اندھے ہوئے جا رہے ہو؟ کہاں سے پھرائے جا رہے ہو؟ کہاں سے تمہیں اُچکا جا رہا ہے؟ تمہاری مَت کیوں ماری جا رہی ہے؟ اس کے جواب میں قرآن مجید نے ان کے متعدد اقوال نقل کیے ہیں . سورۂ یونس میں ان کا یہ قول نقل ہوا: یَقُوۡلُوۡنَ ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ (آیت ۱۸) کہ ہم ان بتوں کو خالق اور (۲) وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوۡتِہَا لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ؕ (العنکبوت:۶۳)
(۳) ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ۘ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۫ۚ فَاَنّٰی تُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۶۲﴾ (غافر)
(۴) ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ لَہُ الۡمُلۡکُ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ فَاَنّٰی تُصۡرَفُوۡنَ ﴿۶﴾ (الزمر) مالک تو نہیں مانتے‘ لیکن ہم کچھ برگزیدہ ہستیاں ضرور مانتے ہیں جن کے نام پر ہم نے یہ بت ُبنا لیے ہیں. یہ ہستیاں مقربین بارگاہِ ربّ العزت ہیں. یہ اللہ کے لاڈلے اور چہیتے ہیں. فرشتے جن کو ہم نے دیویاں بنایا ہے‘ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں‘ اور بیٹیاں بہت لاڈلی ہوتی ہیں‘ کوئی لاڈلی بیٹی اگر فرمائش کرے تو کوئی باپ اس کی فرمائش کو رد نہیں کرتا. لہذا ہم جو اِن بتوں کو پوجتے ہیں تو صرف اس لیے کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی بنیں گے‘ ہماری شفاعت کریں گے اور وہاں ہمیں چھڑوالیں گے. گویا اللہ کے عدل و انصاف کے آگے یہ روک بن جائیں گے. اللہ تعالیٰ نے سورۃ الزمر کی تیسری آیت میں ان کے اس باطل عقیدے کا ذکر فرما کراس کی قطعی طور پر نفی فرما دی. وہاں ارشاد ہوتا ہے:
اَلَا لِلّٰہِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِیَآءَ ۘ مَا نَعۡبُدُہُمۡ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللّٰہِ زُلۡفٰی ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَحۡکُمُ بَیۡنَہُمۡ فِیۡ مَا ہُمۡ فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ ۬ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ مَنۡ ہُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ ﴿۳﴾
’’ آگاہ رہو کہ دین خالص اللہ ہی کا حق ہے (ہر نوع کی عبادت و اطاعت کا سزاوار اورمستوجب و مستحق صرف اللہ ہے). رہے وہ لوگ جنہوں نے اس کے سوا دوسروں کو اپنا پشت پناہ اور مددگاربنا رکھاہے (اس یقین کے ساتھ) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرادیں(وہ اللہ کے ہاں ہمارے اور اُس کے درمیان عفو ومغفرت کا واسطہ اور ذریعہ بن جائیں اور ہمیں اس کاقرب دلا دیں. اے نبی‘ ان کو متنبہ کر دیجیے کہ) اللہ اُن کے درمیان ان تمام باتوں کا (آخرت میں) فیصلہ فرما دے گا جن میں یہ اختلاف کر رہے ہیں. اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا‘ منکر حق اور ناشکرا ہوا.‘‘
تو وہ لوگ آخرت کے منکر نہیں تھے‘ البتہ آخرت میں محاسبہ سے محفوظ رہنے کے لیے شفاعت ِ باطلہ کا تصور رکھتے تھے.
یہ دو چیزیں یعنی شرک اور شفاعت ِ باطلہ کا عقیدہ اصلاً تو ایک ہی ہے. انہیں تصویر کے دو رُخ کہہ لیجیے. میں نے بغرضِ تفہیم انہیں علیحدہ علیحدہ بیان کیا ہے کہ جاہلیت ِقدیمہ ان دو اجزاء سے مرکب تھی. قرآن مجید میں اس جاہلیت قدیمہ کا ذکر نہایت جلی انداز میں ہے. چونکہ اُس دور میں یہی شرک غالب تھا اور اصل گمراہی یہی تھی‘ لہذا مکی سورتوں کا سب سے بڑامضمون یہی ہے. اور جن حضرات کو بھی قرآن مجید سے شغف ہے وہ اس بات کو جانتے ہوں گے کہ قرآن مجید کا دو تہائی حصہ مکی سورتوں پر مشتمل ہے. قرآن حکیم میں بار بار مختلف پیرایوں اور مختلف اسالیب میں‘ مختلف انداز سے اس شرک اور شفاعت ِباطلہ کے عقیدے کی تردید کی گئی ہے.
کہیں تمثیلات کے انداز میں سمجھایا جا رہا ہے‘ کہیں عقلی دلائل کے ذریعے سے جھنجھوڑا جا رہا ہے‘ کہیں ان ہی کے موقف سے اُن پر حجت قائم کی جا رہی ہے. سورۃ الکہف میں تصریف الآیات کے متعلق جو الفاظ آئے ہیں : وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنَا فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لِلنَّاسِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ؕ (آیت ۵۴) اور ذرا سی ترتیب کی تبدیلی کے ساتھ یہی بات سورۃالاسراء میں بایں الفاظ آتی ہے: وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ۫ (آیت ۸۹) . یہ الفاظ اس بات کے اظہار کے لیے آئے ہیں کہ ہم نے کوئی طرزِ اسلوب اور کوئی اندازِ بیان چھوڑا نہیں ہے کہ جس کے ذریعے اس ضلالت وگمراہی کی نفی نہ کردی ہو اور اس کا ابطال نہ کر دیا ہو. آج اگر کوئی شخص آنکھیں کھول کر اپنے معاشرے کا تنقیدی جائزہ لے تو اسے صاف نظر آجائے گا کہ ہمارے معاشرے کی عظیم اکثریت بھی انہی دونوں گمراہیوں میں مبتلا ہے. اس عظیم اکثریت کا دین اولیاء پرستی‘ عرس میلے اور تعزیہ پرستی کا دین ہے‘ قبروں پر حاضری اور وہاں چڑھاوے چڑھانے‘ منتیں ماننے اور دعائیں مانگنے کادین ہے. نماز روزہ تو اس دین میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے. اگر ہو جائے تو بڑی بات ہے‘ ورنہ یہ اس عوامی دین کے لزوم میں داخل نہیں. یہ اکثریت اس وہم میں مبتلا ہے کہ یہ اولیاء کرام جن کی قبروں پر ہم نذر و نیاز چڑھاتے ہیں‘ آخرت میں ہمارے سفارشی بن جائیں گے‘ اور پھر ہمارے سب سے بڑے شفیع خود رسول اللہﷺ ہوں گے جن کے ہم نام لیوا ہیں. چنانچہ کسی محاسبہ ٔ اُخروی کے خوف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.
جاہلیت ِقدیمہ کے خلاف قرآن کی تلوار کا استعمال
پہلا محاذ یہ جاہلیت ِقدیمہ ہے جس کے خلاف ہمیں تلوار اٹھانی ہوگی. لیکن تلوار کون سی؟ قرآن کی تلوار!… اس محاذ پر ابلیس کے اس فریب و اغوا کے لیے قرآن ہی تلوار کا کام دے گا. میں سمجھتا ہوں کہ اس جاہلیت قدیمہ کے محاذ کے لیے کسی دقیق یا بھاری بھر کم علمی منصوبے کی ضرورت نہیں ہے. اگر صرف دورۂ ترجمہ قرآن کی مہم ہمارے معاشرے میں چل جائے تو وہ لوگوں کے عقائد کی تطہیر کے لیے کافی ہو جائے. اس کے لیے دقیق و عمیق تفاسیر کی ضرورت نہیں. خوش قسمتی سے ہمارے یہاں ایک کام عظیم پیمانے پر ہو رہا ہے‘ لیکن کاش کہ وہ کام فضائل سے متعلق ضعیف و شاذ روایات سے بلند تر ہو اور اس کا تعلق ترجمۂ قرآن کے ساتھ قائم ہو جائے کہ ہر مسجد میں فرض نمازوں کے بعد لوگ جمع ہو جائیں اور قرآن حکیم کے متن کے ساتھ کوئی مستند ترجمہ لوگوں کوسنایا جائے. مجھے یقین ہے کہ (اِن شاء اللہ العزیز) قرآن مجید کے متن کے ساتھ مجرد ترجمہ اس جاہلیت ِ قدیمہ کا قلع قمع کرنے کے لیے کافی ہوگا. اس کے لیے قرآن حکیم کی حکمت کے اتھاہ سمندر میں غوطہ زنی کی ضرورت نہیں ہے. اس کے لیے میں مثال دیا کرتا ہوں کہ اگر سمندر میں کہیں تیل گر جائے‘ فرض کریں کہ تیل کا کوئی ٹینکر پھٹ جائے تو تیل سطح سمندر کے اوپر ہی رہتاہے.بالکل اسی طریقے سے قرآن مجید میں جاہلیت قدیمہ کا جوابطال اور اس کی جو تردید ہے اور توحید خالص کی جو دعوت اور اس کے لیے جو استدلال ہے وہ بالکل سطح پر ہے‘ سامنے موجود ہے. اس کے لیے گہرائی میں ا ترنے کی ضرورت نہیں ہے.
تو یہ بات جان لیجیے کہ اس محاذ پر جب تک قرآن مجید کے ساتھ جہاد نہیں ہوگا تب تک مشرکانہ اوہام اور شفاعت ِ باطلہ کے عقیدے کی تردید ممکن نہیں ہے. پھریہ کہ ہمارے یہاں فرقہ وارانہ انداز سے ان عقائد کے حاملین پر جو تنقیدیں ہوتی ہیں اور جس انداز سے ان کی نفی کی جاتی ہے ‘ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا. اس طرح تو ضد اور ہٹ دھرمی میں اضافہ ہوتا ہے اور کدورت اور تلخی مزید پختہ ہوتی ہے. اس لیے کہ پھر وہاں معاملہ آجاتا ہے فرقہ وارانہ عصبیت اور فرقہ وارانہ مفادات کا. چنانچہ اس رنگ اور اس اندازمیں تردید کرنا اور چند مخصوص چیزوں کو نشانہ بنا کر انہی پر مسلسل گولہ باری کرتے چلے جانا‘ اس سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا ہے. قرآن مجید نے اس مسئلہ کا جو "Panoramic View" لیا ہے اور اسے اس کے وسیع پس منظر میں جس قابلِ فہم اور فصیح و بلیغ انداز اور بدیہیاتِ فطرت کے تاروں کو چھیڑنے والے اسلوب میں بیان کیا ہے‘ اس کے مقابل میں کون مسلمان یہ گمان کر سکتا ہے کہ وہ اس سے بہتر اور دلنشین انداز اور ناقابل تردید دلائل اختیار کر سکتاہے؟اور اگر یہ گمان کرے تو کیا اس کا ایمان سلامت رہ جائے گا ؟ معاذ اللہ! کیا کوئی مسلمان بقائمی ٔہوش و حواس یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کا بیان کردہ فلسفہ اور اس کے پیش کردہ دلائل قرآن حکیم کی حکمت اور آیاتِ بیّنات سے زیادہ محکم اور روشن ہیں؟ معاذ اللہ ‘ثم معاذ اللہ!… آیاتِ بیّنات تو وہ ہیں جن کے متعلق سورۃالحدید میں ارشاد فرمایا گیا :
ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبۡدِہٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ بِکُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۹﴾
’’وہی (اللہ تبارک و تعالیٰ) تو ہے جو اپنے بندے (محمد رسول اللہﷺ ) پر روشن اور واضح آیات نازل فرما رہا ہے تا کہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے. اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہربان ہے.‘‘
رسول اللہﷺ کی بعثت اور قرآن حکیم کا نزول اُس کی شانِ رأفت اور شانِ رحمانیت و رحیمیت کے مظاہر اَ تم ہیں. ازروئے الفاظِ قرآنی : اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾ (الرحمن)
پس اگر ملک گیر پیمانے پر قرآن مجید کے ترجمے کی مہم شروع ہو جائے تو میرے نزدیک یہ ہے پہلے محاذ کے روگ کا مداوا. میں نے اس کو نمبر ایک پر اس لیے رکھا ہے کہ عددی اعتبار سے ہماری ملت اور ہماری قوم کی عظیم ترین اکثریت درحقیقت اسی جاہلیت قدیمہ کا شکار ہے.