- 1 الف
- 1.1 نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
- 1.2 جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا
- 1.3 عالم جہاں بعرضِ بساطِ وجود تھا
- 1.4 کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
- 1.5 عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
- 1.6 دل میرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
- 1.7 شوق، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
- 1.8 دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
- 1.9 شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا
- 1.10 دہر میں نقشِ وفا وجہ تسلی نہ ہوا
- 1.11 ستایش گر ہے زاہد، اس قدر جس باغِ رضواں کا
- 1.12 نہ ہو گا "یک بیاباں ماندگی" سے ذوق کم میرا
- 1.13 سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی
- 1.14 محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
- 1.15 بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
- 1.16 شب کہ ذوقِ گفتگو سے تیری دل بیتاب تھا
- 1.17 نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
- 1.18 کس کا جنونِ دید تمنّا شکار تھا؟
- 1.19 بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
- 1.20 شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا
- 1.21 دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
- 1.22 یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
- 1.23 ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
- 1.24 درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
- 1.25 اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں
- 1.26 پئے نذرِ کرم تحفہ ہے 'شرمِ نا رسائی' کا
- 1.27 گر نہ "اندوہِ شبِ فرقت" بیاں ہو جائے گا
- 1.28 درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
- 1.29 گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیِ جا کا
- 1.30 قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفَس پرور ہوا
- 1.31 جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
- 1.32 میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں
- 1.33 گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
- 1.34 نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
- 1.35 یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا
- 1.36 وہ میری چینِ جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا
- 1.37 پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
- 1.38 ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
- 1.39 لبِ خشک در تشنگی، مردگاں کا
- 1.40 تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا
- 1.41 شب کہ وہ مجلس فروزِ خلوتِ ناموس تھا
- 1.42 آئینہ دیکھ، اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
- 1.43 ضعفِ جنوں کو وقتِ تپش در بھی دور تھا
- 1.44 فنا کو عشق ہے بے مقصداں حیرت پرستاراں
- 1.45 عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
- 1.46 خود پرستی سے رہے باہم دِگر نا آشنا
- 1.47 ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
- 1.48 طاؤس در رکاب ہے ہر ذرّہ آہ کا
- 1.49 غافل بہ وہمِ ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
- 1.50 جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
- 1.51 بہارِ رنگِ خونِ دل ہے ساماں اشک باری کا
- 1.52 عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
- 1.53 شکوۂ یاراں غبارِ دل میں پنہاں کر دیا
- 1.54 پھر وہ سوئے چمن آتا ہے خدا خیر کرے
- 1.55 اسدؔ! یہ عجز و بے سامانیِ فرعون توَام ہے
- 1.56 بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج
- 1.57 بہ رہنِ شرم ہے با وصفِ شوخی اہتمام اس کا
- 1.58 عیب کا دریافت کرنا، ہے ہنر مندی اسدؔ
- 1.59 شب کہ ذوقِ گفتگو سے تیرے، دل بے تاب تھا
- 1.60 دود کو آج اس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی
- 2 ب
- 2.1 پھر ہوا وقت کہ ہو بال کُشا موجِ شراب
- 3 ت
- 3.1 افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
- 3.2 رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
- 3.3 آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست
- 3.4 مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ
- 4 ج
- 4.1 گلشن میں بند وبست بہ رنگِ دگر ہے آج
- 4.2 معزولیِ تپش ہوئی افرازِ انتظار
- 4.3 لو ہم مریضِ عشق کے بیمار دار ہیں
- 5 چ
- 5.1 نفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ
- 6 د
- 6.1 حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
- 6.2 ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم
- 6.3 تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
- 7 ر
- 7.1 بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار
- 7.2 گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
- 7.3 کیوں جل گیا نہ، تابِ رخِ یار دیکھ کر
- 7.4 لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہرِ درخشاں پر
- 7.5 ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
- 7.6 صفائے حیرت آئینہ ہے سامانِ زنگ آخر
- 7.7 فسونِ یک دلی ہے لذّتِ بیداد دشمن پر
- 7.8 ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں
- 7.9 لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
- 8 ز
- 8.1 حریفِ مطلبِ مشکل نہیں فسونِ نیاز
- 8.2 بے گانۂ وفا ہے ہوائے چمن ہنوز
- 8.3 کیوں کر اس بت سے رکھوں جان عزیز!
- 8.4 وسعتِ سعیِ کرم دیکھ کہ سر تا سرِ خاک
- 8.5 گل کھلے غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی
- 8.6 نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
- 9 س
- 9.1 کب فقیروں کو رسائی بُتِ مے خوار کے پاس
- 9.2 اے اسدؔ ہم خود اسیرِ رنگ و بوئے باغ ہیں
- 10 ش
- 10.1 نہ لیوے گر خسِ جَوہر طراوت سبزۂ خط سے
- 11 ع
- 11.1 جادۂ رہ خُور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع
- 11.2 رُخِ نگار سے ہے
- 12 ف
- 12.1 بیمِ رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش
- 13 ک
- 13.1 زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک
- 13.2 آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک
- 13.3 دیکھنے میں ہیں گرچہ دو، پر ہیں یہ دونوں یار ایک
- 14 گ
- 14.1 گر تُجھ کو ہے یقینِ اجابت، دُعا نہ مانگ
- 15 ل
- 15.1 ہے کس قدر ہلاکِ فریبِ وفائے گُل
- 15.2 غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
- 15.3 بہ نالہ دل بستگی فراہم کر
- 15.4 مجھ کو دیارِ غیر میں مارا، وطن سے دور
- 15.5 از آنجا کہ حسرتِ کشِ یار ہیں ہم
- 16 م
- 17 ن
- 17.1 لوں وام بختِ خفتہ سے یک خوابِ خوش ولے
- 17.2 وہ فراق اور وہ وصال کہاں
- 17.3 کی وفا ہم سے تو غیر اِس کو جفا کہتے ہیں
- 17.4 آبرو کیا خاک اُس گُل کی۔ کہ گلشن میں نہیں
- 17.5 عہدے سے مدحِ ناز کے باہر نہ آ سکا
- 17.6 مہرباں ہو کے بلا لو مجھے، چاہو جس وقت
- 17.7 ہم سے کھل جاؤ بوقتِ مے پرستی ایک دن
- 17.8 ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
- 17.9 مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
- 17.10 مت مردُمکِ دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
- 17.11 برشکالِ گریۂ عاشق ہے دیکھا چاہیے
- 17.12 عشق تاثیر سے نومید نہیں
- 17.13 جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
- 17.14 ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
- 17.15 کل کے لیے کر آج نہ خسّت شراب میں
- 17.16 حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
- 17.17 ذکر میرا بہ بدی بھی، اُسے منظور نہیں
- 17.18 نالہ جُز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد نہیں
- 17.19 دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
- 17.20 ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر
- 17.21 قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشتِ قیس میں آنا
- 17.22 دل لگا کر لگ گیا اُن کو بھی تنہا بیٹھنا
- 17.23 یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
- 17.24 نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
- 17.25 تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
- 17.26 زمانہ سخت کم آزار ہے، بہ جانِ اسدؔ
- 17.27 دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں
- 17.28 سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
- 17.29 دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں
- 17.30 فزوں کی دوستوں نے حرصِ قاتل ذوقِ کشتن میں
- 17.31 مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
- 17.32 دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
- 17.33 غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یُوں
- 17.34 ہم بے خودیِ عشق میں کر لیتے ہیں سجدے
- 17.35 اپنا احوالِ دلِ زار کہوں یا نہ کہوں
- 17.36 ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
- 17.37 جس دن سے کہ ہم خستہ گرفتارِ بلا ہیں
- 17.38 مے کشی کو نہ سمجھ بے حاصل
- 17.39 دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں
- 18 و
- 18.1 حسد سے دل اگر افسردہ ہے، گرمِ تماشا ہو
- 18.2 کعبے میں جا رہا، تو نہ دو طعنہ، کیا کہیں
- 18.3 وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو
- 18.4 ابر روتا ہے کہ بزمِ طرب آمادہ کرو
- 18.5 ملی نہ وسعتِ جولان یک جنون ہم کو
- 18.6 قفس میں ہوں گر اچّھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
- 18.7 واں اس کو ہولِ دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار
- 18.8 واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
- 18.9 تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
- 18.10 گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
- 18.11 کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو
- 18.12 رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
- 18.13 بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو
- 19 ہ
- 19.1 شبِ وصال میں مونس گیا ہے بَن تکیہ
- 19.2 از مہر تا بہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ
- 19.3 ہے سبزہ زار ہر در و دیوارِ غم کدہ
- 19.4 نہ پوچھ حال اس انداز، اس عتاب کے ساتھ
- 19.5 ہندوستان سایۂ گل پائے تخت تھا
- 20 ی
- 20.1 صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے
- 20.2 وہ بات چاہتے ہو کہ جو بات چاہیے
- 20.3 بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
- 20.4 ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
- 20.5 تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
- 20.6 گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
- 20.7 غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
- 20.8 حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
- 20.9 کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
- 20.10 درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
- 20.11 سر گشتگی میں عالمِ ہستی سے یاس ہے
- 20.12 گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
- 20.13 تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو
- 20.14 بسکہ حیرت سے ز پا افتادۂ زنہار ہے
- 20.15 پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
- 20.16 یہ بزمِ مے پرستی، حسرتِ تکلیف بے جا ہے
- 20.17 رحم کر ظالم کہ کیا بودِ چراغِ کشتہ ہے
- 20.18 چشمِ خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
- 20.19 عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
- 20.20 ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
- 20.21 اور تو رکھنے کو ہم دہر میں کیا رکھتے تھے
- 20.22 اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
- 20.23 رفتارِ عمر قطعِ رہ اضطراب ہے
- 20.24 دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے
- 20.25 گرمِ فریاد رکھا شکلِ نہالی نے مجھے
- 20.26 کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
- 20.27 اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ
- 20.28 سادگی پر اس کی، مر جانے کی حسرت دل میں ہے
- 20.29 دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
- 20.30 تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے
- 20.31 کوئی دن گر زندگانی اور ہے
- 20.32 کوئی امّید بر نہیں آتی
- 20.33 دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
- 20.34 کہتے تو ہو تم سب کہ بتِ غالیہ مو آئے
- 20.35 پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے
- 20.36 جنوں تہمت کشِ تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
- 20.37 نِکوہِش ہے سزا فریادیِ بیدادِ دِلبر کی
- 20.38 بے اعتدالیوں سے سبُک سب میں ہم ہوئے
- 20.39 جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
- 20.40 ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
- 20.41 آ، کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
- 20.42 میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
- 20.43 ہجومِ غم سے یاں تک سر نگونی مجھ کو حاصل ہے
- 20.44 پا بہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد
- 20.45 جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
- 20.46 حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے
- 20.47 نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی نہ سہی
- 20.48 عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے
- 20.49 شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
- 20.50 ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
- 20.51 غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
- 20.52 پھر اس انداز سے بہار آئی
- 20.53 تغافل دوست ہوں میرا دماغِ عجز عالی ہے
- 20.54 کب وہ سنتا ہے کہانی میری
- 20.55 نقشِ نازِ بتِ طنّاز بہ آغوشِ رقیب
- 20.56 گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے
- 20.57 جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
- 20.58 یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
- 20.59 ہے وصل ہجر عالمِ تمکین و ضبط میں
- 20.60 چاہیے اچھّوں کو، جتنا چاہیے
- 20.61 ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
- 20.62 نکتہ چیں ہے، غمِ دل اُس کو سُنائے نہ بنے
- 20.63 چاک کی خواہش، اگر وحشت بہ عُریانی کرے
- 20.64 وہ آ کے، خواب میں، تسکینِ اضطراب تو دے
- 20.65 تپِش سے میری، وقفِ کش مکش، ہر تارِ بستر ہے
- 20.66 خطر ہے رشتۂ اُلفت رگِ گردن نہ ہو جائے
- 20.67 فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے
- 20.68 نہ پُوچھ نسخۂ مرہم جراحتِ دل کا
- 20.69 ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
- 20.70 شفق بدعوۂ عاشق گواہِ رنگیں ہے
- 20.71 کیوں نہ ہو چشمِ بُتاں محوِ تغافل، کیوں نہ ہو؟
- 20.72 دیا ہے دل اگر اُس کو، بشر ہے، کیا کہیے
- 20.73 دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے
- 20.74 یاد ہے شادی میں بھی، ہنگامۂ "یارب"، مجھے
- 20.75 حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے
- 20.76 کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں، گر آ جائے ہے، مُجھ سے
- 20.77 زبسکہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے
- 20.78 لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے
- 20.79 بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
- 20.80 کہوں جو حال تو کہتے ہو "مدعا کہیے "
- 20.81 رونے سے اور عشق میں بےباک ہو گئے
- 20.82 نشّہ ہا شادابِ رنگ و ساز ہا مستِ طرب
- 20.83 عرضِ نازِ شوخیِ دنداں برائے خندہ ہے
- 20.84 حسنِ بے پروا خریدارِ متاعِ جلوہ ہے
- 20.85 جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
- 20.86 ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
- 20.87 بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
- 20.88 باغ تجھ بن گلِ نرگس سے ڈراتا ہے مجھے
- 20.89 روندی ہوئی ہے کوکبہ شہریار کی
- 20.90 ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
- 20.91 کوہ کے ہوں بارِ خاطر گر صدا ہو جائیے
- 20.92 مستی، بہ ذوقِ غفلتِ ساقی ہلاک ہے
- 20.93 لبِ عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی
- 20.94 آمدِ سیلابِ طوفانِ صدائے آب ہے
- 20.95 ہوں میں بھی تماشائیِ نیرنگِ تمنا
- 20.96 سیاہی جیسے گِر جاوے دمِ تحریر کاغذ پر
- 20.97 ہجومِ نالہ، حیرت عاجزِ عرضِ یک افغاں ہے
- 20.98 خموشی میں تماشا ادا نکلتی ہے
- 20.99 جس جا نسیم شانہ کشِ زلفِ یار ہے
- 20.100 آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
- 20.101 شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے
- 20.102 منظور تھی یہ شکل تجلّی کو نور کی
- 20.103 غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے
- 20.104 مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
- 20.105 نویدِ امن ہے بیدادِ دوست جاں کے لیے
- 20.106 آپ نے مَسَّنی الضُّرُّ کہا ہے تو سہی
- 20.107 لطفِ نظّارۂ قاتِل دمِ بسمل آئے
- 20.108 میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی
- 20.109 عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
- 20.110 اک گرم آہ کی تو ہزاروں کے گھر جلے
- 20.111 زندانِ تحّمل ہیں مہمانِ تغافل ہیں
- 20.112 مستعدِ قتلِ یک عالم ہے جلاّدِ فلک
- 20.113 نہ حیرت چشمِ ساقی کی، نہ صحبت دورِ ساغر کی
- 20.114 صبا لگا وہ طمانچہ طرف سے بلبل کے
- 21 قصائد
- 21.1 منقبتِ حیدری
- 21.2 منقبت (حضرت علی کے لیے)
- 21.3 مدحِ شاہ
- 21.4 غزل
- 21.5 مدحِ شاہ
- 21.6 زہرِ غم کر چکا تھا میرا کام
- 21.7 مدحِ شاہ
- 21.8 کُنج میں بیٹھا رہوں یوں پَر کھلا
- 21.9 ایلین براؤن
- 21.10 والیِ الور کی سالگرہ پر
- 21.11 میکلوڈ صاحب کی خدمت میں
- 21.12 نوّاب یوسف علی خاں
- 21.13 مدح نصرت الملک بہادر
- 21.14 در مدحِ شاہ
- 21.15 گزارش مصنّف بحضورِ شاہ
- 22 در صفتِ انبہ
- 23 ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی
- 24 خمسہ
- 24.1 تضمین بر غزل بہادر شاہ ظفر
- 25 مرثیہ
- 25.1 سلام
- 26 سہرے
- 26.1 خوش ہو اَے بخت کہ ہے آج تِرے سر سہرا
- 26.2 ہم نشیں تارے ہیں، اور چاند شہاب الدیں خاں
- 26.3 چرخ تک دھوم ہے، کس دھوم سے آیا سہرا
- 26.4 بیانِ مصنّف (گزارشِ غالبؔ)
- 27 قطعات
- 27.1 گزارشِ غالبؔ
- 27.2 گئے وہ دن کہ نا دانستہ غیروں کی وفا داری
- 27.3 ہائے ہائے
- 27.4 در مدح ڈلی
- 27.5 بیسنی روٹی
- 27.6 چہار شنبہ آخرِ ماہِ صفر
- 27.7 روزہ
- 27.8 طائرِ دل
- 27.9 خط منظوم بنام علائی
- 27.10 قطعہ تاریخ
- 27.11 قطعہ تاریخ
- 27.12 قطعہ تاریخ
- 27.13 بلا عنوان
- 27.14 سہل تھا مُسہل ولے یہ سخت مُشکل آ پڑی
- 27.15 گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں [1]
- 27.16 ایک اہلِ درد نے سنسان جو دیکھا قفس
- 27.17 اے جہاں آفریں خدائے کریم
- 27.18 گوڑگانویں کی ہے جتنی رعیّت، وہ یک قلم
- 28 رباعیات
- 28.1 شب زُلف و رُخِ عَرَق فِشاں کا غم تھا
- 28.2 دل سخت نژند ہو گیا ہے گویا
- 28.3 دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالبؔ
- 28.4 آتشبازی ہے جیسے شغلِ اطفال
- 28.5 بعد از اِتمامِ بزمِ عیدِ اطفال
- 28.6 مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
- 28.7 ہیں شہ میں صفاتِ ذوالجلالی باہم
- 28.8 کہتے ہیں کہ اب وہ مَردُم آزار نہیں
- 28.9 سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں؟
- 28.10 دل تھا، کہ جو جانِ دردِ تمہید سہی
- 28.11 ہے خَلقِ حسد قماش لڑنے کے لیے
- 28.12 بھیجی ہے جو مجھ کو شاہِ جَمِ جاہ نے دال
- 28.13 حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
- 28.14 اِس رشتے میں لاکھ تار ہوں، بلکہ سِوا
- 28.15 ہم گر چہ بنے سلام کرنے والے
- 28.16 اِن سیم کے بِیجوں کو کوئی کیا جانے
- 28.17 رقعے کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے
- 28.18 اے روشنیِ دیدہ شہاب الدیں خاں
- 28.19 اے منشیِ خیرہ سر سخن ساز نہ ہو
- 28.20 جن لوگوں کو ہے مجھ سے عداوت گہری
- 29 متفرقات
- 30 ضمیمۂ اول
- 30.1 بدتر از ویرانہ ہے فصلِ خزاں میں صحنِ باغ
- 30.2 خزینہ دارِ محبت ہوئی ہوائے چمن
- 30.3 کرم ہی کچھ سببِ لطف و التفات نہیں
- 30.4 جوں شمع ہم اک سوختہ سامانِ وفا ہیں
- 30.5 نالے دل کھول کے دو چار کروں یا نہ کروں
- 30.6 وضعِ نیرنگیِ آفاق نے مارا ہم کو
- 30.7 حسنِ بے پروا گرفتارِ خود آرائی نہ ہو
- 30.8 نہ پوچھ حال اس انداز اس عتاب کے ساتھ
- 30.9 بتائیں ہم تمہارے عارض و کاکُل کو کیا سمجھے
- 30.10 نسیمِ صبح جب کنعاں میں بوئے پیرَہن لائی
- 30.11 وفا جفا کی طلب گار ہوتی آئی ہے
- 30.12 یونہی افزائشِ وحشت کے جو ساماں ہوں گے
- 30.13 نمائش پردہ دارِ طرز بیدادِ تغافل ہے
- 30.14 خود جاں دے کے روح کو آزاد کیجیے
- 30.15 ہم سے خوبانِ جہاں پہلو تہی کرتے رہے
- 30.16 درد ہو دل میں تو دوا کیجے
- 30.17 سکوت و خامشی اظہارِ حالِ بے زبانی ہے
- 30.18 کس کی برقِ شوخیِ رفتار کا دلدادہ ہے
- 30.19 اس جور و جفا پر بھی بدظن نہیں ہم تجھ سے
- 31 آفت آہنگ ہے کچھ نالۂ بلبل ورنہ
- 32 ضمیمۂ دوم
- 32.1 دعوۂ عشقِ بتاں سے بہ گلستاں گل و صبح
- 32.2 بسکہ ہیں بدمستِ بشکن بشکنِ میخانہ ہم
- 32.3 صاف ہے ازبسکہ عکسِ گل سے گلزارِ چمن
- 32.4 ضبط سے مطلب بجز وارستگی دیگر نہیں
- 32.5 ہم زباں آیا نظر فکرِ سخن میں تو مجھے
- 32.6 یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
- 32.7 بسکہ حیرت سے ز پا افتادۂ زنہار ہے
- 32.8 نیم رنگی جلوہ ہے بزمِ تجلی رازِ دوست
- 33 کتابیات